مذہب عشق میں شجرہ نہیں دیکھا جاتا
ہم پرندوں میں قبیلہ نہیں دیکھا جاتا
لشکر خواب کسی طور اتر آنکھوں میں
رات بھر نیند کا رستہ نہیں دیکھا جاتا
سورما باپ نے تلوار بھی گروی رکھ دی
ہاتھ میں بچوں کے کاسہ نہیں دیکھا جاتا
تم مرے یار ہو کیسے میں ہرا دوں تم کو
مجھ سے دشمن کو بھی پسپا نہیں دیکھا جاتا
اس زمانے کو فقط موت نظر آتی ہے
ڈوبنے والے کا جذبہ نہیں دیکھا جاتا
اے عزیزو! مجھے مٹی کے حوالے کر دو
مجھ سے اب جسم کا ملبہ نہیں دیکھا جاتا
جب سے دریا پہ ہوا پیاس کا قبضہ ہاشمؔ
لب دریا کوئی پیاسا نہیں دیکھا جاتا
غزل
مذہب عشق میں شجرہ نہیں دیکھا جاتا
ہاشم رضا جلالپوری