مذاق غم اڑانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
کسی کا مسکرانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
کبھی نیندیں چرانا جن کی مجھ کو اچھا لگتا تھا
نظر ان کا چرانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
جنہیں مجھ پر یقیں ہے میری چاہت پر بھروسہ ہے
بھرم ان کا مٹانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
نشیمن میرے دل کا جب سے تنکا تنکا بکھرا ہے
کوئی بھی آشیانہ اب مجھے اچھا نہیں لگتا
محبت کرنے والوں نے جو چھوڑے ہیں زمانے میں
نشاں ان کے مٹانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
تری دنیا سے شاید بھر چکا ہے میرا دل ساحلؔ
یہاں کا آب و دانہ اب مجھے اچھا نہیں لگتا
غزل
مذاق غم اڑانا اب مجھے اچھا نہیں لگتا
محمد علی ساحل