مزا جب ہے اسے برق تجلیٰ دیکھنے والے
جمال یار میں تحلیل ہو جا دیکھنے والے
نظر آتی تجھے ہر خاک کے ذرہ میں اک دنیا
نگاہ غور سے تو نے نہ دیکھا دیکھنے والے
تجھے نزدیک سے بھی ایک دن وہ دیکھ ہی لیں گے
تصور میں ترا حسن دل آرا دیکھنے والے
خبر بھی ہے تجھے کچھ یہ تماشہ گاہ عالم ہے
تماشہ خود نہ بن جانا تماشہ دیکھنے والے
حریم طور کا سیمابؔ جب اٹھنے لگا پردہ
ندا یہ غیب سے آئی سنبھل جا دیکھنے والے

غزل
مزا جب ہے اسے برق تجلیٰ دیکھنے والے
سیماب بٹالوی