مزہ شباب کا جب ہے کہ با خدا بھی رہے
بتوں کے ساتھ رہے اور پارسا بھی رہے
مذاق حسن پرستی قبول ہے مجھ کو
اگر نگاہ حقیقت سے آشنا بھی رہے
نظام دہر جدا کر رہا ہے دونوں کو
میں چاہتا ہوں کلی بھی رہے صبا بھی رہے
کہاں سے جان بچے جب وہ شوخ سحر نگاہ
جفا شعار بھی ہو مائل وفا بھی رہے
مجھے ملا ہے وہ رنگیں ادا مقدر سے
جو دل میں جلوہ نما بھی رہے چھپا بھی رہے
چمن پرست وہی ہے کہ جس کا ذوق سلیم
گلوں کے سائے میں کانٹوں سے کھیلتا بھی رہے
وہ رند پاک طبیعت ہے آپ کا شاعرؔ
شراب بھی نہ پئے اور جھومتا بھی رہے
غزل
مزہ شباب کا جب ہے کہ با خدا بھی رہے
شاعر فتح پوری