EN हिंदी
موت سی خموشی جب ان لبوں پہ طاری کی | شیح شیری
maut si KHamoshi jab un labon pe tari ki

غزل

موت سی خموشی جب ان لبوں پہ طاری کی

اکرام مجیب

;

موت سی خموشی جب ان لبوں پہ طاری کی
تب کہیں نبھا پائی رسم رازداری کی

ہم ابھی ندامت کی قید سے نہیں نکلے
کاٹتے ہیں روز و شب فصل بے قراری کی

بھول ہی نہیں سکتے اے غم جہاں تو نے
جس طرح پذیرائی عمر بھر ہماری کی

کم ذرا نہ ہونے دی ایک لفظ کی حرمت
ایک عہد کی ساری عمر پاسداری کی

سب انا پرستی کی مسندوں پہ ہیں فائز
سر کرے کڑی منزل کون خاکساری کی

پر خطر رفاقت وہ جو مفاد کے تابع
سوچ بے ثمر اپنی ذات کے پجاری کی

ایک درد کی لذت برقرار رکھنے کو
کچھ لطیف جذبوں کی خوں سے آبیاری کی