موت بہتر ہے ایسے جینے سے
دل میں کچھ بھی نہیں قرینے سے
خشک آنکھیں کہاں جھلکتی ہیں
دل میں اترے ہیں کچھ سفینے سے
ہم نے کیا چھو لیا تصور میں
کھنکھاتے ہیں آبگینے سے
ہم کو فرصت نہیں گھڑی بھر کی
پیرہن زندگی کا سینے سے
ایک لمحہ کا تجربہ بہتر
روز و شب سال اور مہینے سے
ایک میں تو ہوں منتشر گھر میں
ورنہ ہر چیز ہے قرینے سے
اور اندھیرا بڑھا دو آنگن میں
روشنی آ رہی ہے زینے سے
غزل
موت بہتر ہے ایسے جینے سے
رؤف صادق