EN हिंदी
موت آتی نہیں قرینے کی | شیح شیری
maut aati nahin qarine ki

غزل

موت آتی نہیں قرینے کی

شیخ عبداللطیف تپش

;

موت آتی نہیں قرینے کی
یہ سزا مل رہی ہے جینے کی

مے سے پرہیز شیخ توبہ کرو
اک یہی چیز تو ہے پینے کی

تمہیں کہتا ہے آئنہ خودبیں
باتیں سنتے ہو اس کمینے کی

ہو گیا جب سے بے نقاب کوئی
شمع روشن نہ پھر کسی نے کی

چشم تر آبرو تو پیدا کر
یوں نہیں بجھتی آگ سینے کی

اہل دنیا سے کیا بدی کا گلا
اے تپشؔ تو نے کس سے کی نیکی