موسم سے رنگ و بو ہیں خفا دیکھتے چلو
یہ کیا چلی چمن میں ہوا دیکھتے چلو
انبار ہر طرف ہیں اندھیروں کے یہ درست
شاید نہیں ہو آب بقا دیکھتے چلو
تسکین سنبل و گل و لالہ کے واسطے
کیا دے رہی ہے باد صبا دیکھتے چلو
جتنے تھے جاں نثار چمن بعد صبح نو
کچھ اجر بھی کسی کو ملا دیکھتے چلو
اصنام زر کے پاؤں میں ڈالے ہوئے جبیں
کتنے ہیں بندگان خدا دیکھتے چلو
کس کس کا اعتماد وفا ہو گیا شکست
کس کس کو حسن سے ہے گلا دیکھتے چلو
دانشؔ کو ضد ہے دیر و حرم بھی سہی مگر
کس کو ملا ہے ان کا پتا دیکھتے چلو
غزل
موسم سے رنگ و بو ہیں خفا دیکھتے چلو
احسان دانش