موسم ہجر کے آنے کے شکایت نہیں کی
اے مرے دل تجھے کیا ہو گیا وحشت نہیں کی
کوئی الزام کوئی طنز کوئی رسوائی
دن بہت ہو گئے یاروں نے عنایت نہیں کی
لفظ کے شوق میں ایسا بھی مقام آیا ہے
جز کسی شعر کی آمد کوئی حسرت نہیں کی
جس کے نشے میں کوئی ہجر گزار آئے ہیں
وہ گھڑی وصل کی ہم نے کبھی رخصت نہیں کی
اب تجھے کیسے بتائیں کہ تری یادوں میں
کچھ اضافہ ہی کیا ہم نے خیانت نہیں کی
سارے معیار وفاؤں کے نبھائے ہم نے
اس کو چھوڑا تو بہت سوچ کے، عجلت نہیں کی
عشق دریا بھی سمندر بھی کنارہ بھی حلیمؔ
ڈوبنے والے کو دیکھا ہے تو حیرت نہیں کی
غزل
موسم ہجر کے آنے کے شکایت نہیں کی
حلیم قریشی