موسم گل میں کوئی کب ہوش مندانہ چلا
پھول دیکھے جس نے کانٹوں میں وہ دیوانہ چلا
ایک ہی منزل پہ ہر راہی کو جانا تھا مگر
زعم باطل میں چلا جو بھی جداگانہ چلا
اس کے ہر اک گام پر تھی کامرانی ساتھ ساتھ
کارگاہ دہر میں جو سرفروشانہ چلا
واعظان کم نظر ہیں دشمن تمکین ہوش
مٹ گیا وہ ان کی باتوں پر جو دیوانہ چلا
مے کدہ میں رنج و غم کیسا کہاں کی مشکلیں
ہر خلش جاتی رہی جب دور پیمانہ چلا
آفریں صد آفریں یہ ہمت ذوق طلب
شمع کے جلتے ہی جل مرنے کو پروانہ چلا
کوئی اسرار مشیت ہو نہ پایا آشکار
بے خبر آیا تھا کشفیؔ اور بیگانہ چلا

غزل
موسم گل میں کوئی کب ہوش مندانہ چلا
کشفی لکھنؤی