مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے
اک دشت بے کنار میں پھر گھر بنائیے
تاریک ہو نہ پائے کبھی دامن فلک
پلکوں سے تا بہ صبح ستارے جلائیے
ہونے نہ پائے پھولوں کا محتاج گلستاں
دل کے ہزار زخم ہمیشہ کھلائیے
چہروں کو قید سے ہوئے آزاد گر کبھی
بکھرے ہوئے وجود کو کیسے بچایئے
ساحل نہ دے سکا ہے سہارا تو کیا ہوا
گرداب کو اسیر سفینہ بنائیے
غزل
مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے
پروین شیر