EN हिंदी
مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے | شیح شیری
maqtal mein apni maut ka arman liye hue

غزل

مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے

نور محمد نور

;

مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے
ہم جا رہے ہیں زیست کا ساماں لئے ہوئے

آتا ہے کوئی درد کا درماں لئے ہوئے
اے بخت جاگ گردش دوراں لئے ہوئے

اے وقت آج پھر سے انہیں تار تار کر
بیٹھے ہیں ہم بھی جیب و گریباں لئے ہوئے

نکلے ہیں اشک ضبط کے دامن کو چیر کر
پہلو میں اپنے شورش طوفاں لئے ہوئے

بجھ جائیں پھر نہ گور غریباں کے یہ چراغ
خوف ہوا سے ہیں تہ داماں لئے ہوئے

جاتا ہے کیا حریف سوئے کوئے دوست پھر
دام ہوس میں دانۂ پنہاں لئے ہوئے

خا لی شکست فتح مبیں کے یقین سے
ہاں نورؔ اب کے ہمت مرداں لئے ہوئے