مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
ہیں چشم و دل گھر اس کے جہاں چاہے واں رہے
مثل نگاہ گھر سے نہ باہر رکھا قدم
پھر آئے ہر طرف یہ جہاں کے تہاں رہے
نے بت کدہ سے کام نہ مطلب حرم سے تھا
محو خیال یار رہے ہم جہاں رہے
جس کے کہ ہو نقاب سے باہر شعاع حسن
وہ روئے آفتاب خجل کب نہاں رہے
آئے تو ہو پہ دل کو تسلی ہو تب مرے
اتنا کہو کہ آج نہ جاویں گے ہاں رہے
ہستی ہی میں ہے سیر عدم اس کو یاں جسے
فکر میان یار و خیال دہاں رہے
غیبت ہی میں ہے اس کی ہمارا ظہور یاں
وہ جلوہ گر جب آگے ہوا ہم کہاں رہے
بیدارؔ زلف کھینچے ادھر چشم یار ادھر
حیراں ہے دل کہاں نہ رہے کس کے ہاں رہے
غزل
مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
میر محمدی بیدار