EN हिंदी
منزلوں اس کو آواز دیتے رہے منزلوں جس کی کوئی خبر بھی نہ تھی | شیح شیری
manzilon usko aawaz dete rahe manzilon jis ki koi KHabar bhi na thi

غزل

منزلوں اس کو آواز دیتے رہے منزلوں جس کی کوئی خبر بھی نہ تھی

تاب اسلم

;

منزلوں اس کو آواز دیتے رہے منزلوں جس کی کوئی خبر بھی نہ تھی
دامن شب میں کوئی ستارہ نہ تھا شمع کوئی سر رہ گزر بھی نہ تھی

اک بگولہ اٹھا دشت میں کھو گیا اک کرن تھی جو ظلمت میں گم ہو گئی
زندگی جس کو سمجھے تھے ہم زندگی زندگی مثل رقص شرر بھی نہ تھی

فصل گل سے تھا آباد صحن چمن فصل گل جو گئی رونقیں لٹ گئیں
یوں خموشی سے شام خزاں آئے گی اہل گلشن کو اس کی خبر بھی نہ تھی

اس طرح منزل آرزو کٹ گئی اس طرح یہ گھنی تیرگی چھٹ گئی
اپنے پاؤں پہ یارو خراشیں تو کیا اپنے چہرے پہ گرد سفر بھی نہ تھی

پھر سے آنکھوں کے ساغر چھلکنے لگے موج در موج آنسو نکلنے لگے
تابؔ گھر میں وہ مہمان پھر آ گیا جس کے آنے کی کوئی خبر بھی نہ تھی