EN हिंदी
منزلوں تک منزلوں کی آرزو رہ جائے گی | شیح شیری
manzilon tak manzilon ki aarzu rah jaegi

غزل

منزلوں تک منزلوں کی آرزو رہ جائے گی

جمیلؔ مرصع پوری

;

منزلوں تک منزلوں کی آرزو رہ جائے گی
کارواں تھک جائیں پھر بھی جستجو رہ جائے گی

اے دل ناداں تجھے بھی چاہئے پاس ادب
وہ جو روٹھے تو ادھوری گفتگو رہ جائے گی

غیر کے آنے نہ آنے سے بھلا کیا فائدہ
تم جو آ جاؤ تو میری آبرو رہ جائے گی

اس بھری محفل میں تیری ایک میں ہی تشنہ لب
ساقیا کیا خواہش جام و سبو رہ جائے گی

ہم اگر محروم ہوں گے اہل فن کی داد سے
شعر کہنے کی کسے پھر آرزو رہ جائے گی