EN हिंदी
منزلوں کو نظر میں رکھا ہے | شیح شیری
manzilon ko nazar mein rakkha hai

غزل

منزلوں کو نظر میں رکھا ہے

تابش دہلوی

;

منزلوں کو نظر میں رکھا ہے
جب قدم رہ گزر میں رکھا ہے

اک ہیولیٰ ہے گھر خرابی کا!
ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے

ہم نے حسن ہزار شیوہ کو
جلوہ جلوہ نظر میں رکھا ہے

چاہیئے صرف ہمت پرواز
باغ تو بال و پر میں رکھا ہے

حرم و دیر سے الگ ہم نے
ابھی اک سجدہ سر میں رکھا ہے

میری ہمت نے اپنی منزل کا
فاصلہ رہ گزر میں رکھا ہے

رات دن دھوپ چھاؤں کا عالم
کیا تماشا نظر میں رکھا ہے