منزل ملے نہ کوئی بھی رستہ دکھائی دے
دنیا فقط یہ کھیل تماشہ دکھائی دے
رشتوں کا اک ہجوم تھا میں ڈھونڈھتی رہی
حسرت لیے ہوئے کوئی اپنا دکھائی دے
مجھ کو مٹا دے اس طرح دنیا سے اے خدا
تاریخ میں بھی کوئی نہ مجھ سا دکھائی دے
اس نے جلایا میرے نشیمن کو پھر کہا
حد نگاہ تک تجھے صحرا دکھائی دے
یہ زندگی کی بازی گری تو بھی سیکھ لے
کر کر کے قتل تو بھی مسیحا دکھائی دے
رشتوں کا خول اوڑھ کے ملتے ہیں لوگ آج
ہر آدمی مجھے یہاں تنہا دکھائی دے
کرتا رہے جنوں یہ تعاقب سراب کا
پیاسے کو خواب میں ابھی دریا دکھائی دے
اے شمعؔ کس نے دی تھی تجھے ایسی بد دعا
گھر میں کوئی چراغ نہ جلتا دکھائی دے
غزل
منزل ملے نہ کوئی بھی رستہ دکھائی دے
سیدہ نفیس بانو شمع