EN हिंदी
من کے آنگن میں خیالوں کا گزر کیسا ہے | شیح شیری
man ke aangan mein KHayalon ka guzar kaisa hai

غزل

من کے آنگن میں خیالوں کا گزر کیسا ہے

مونی گوپال تپش

;

من کے آنگن میں خیالوں کا گزر کیسا ہے
یہ چہکتا ہوا ویران سا گھر کیسا ہے

میرا ماضی جہاں بکھرا سا پڑا ہے ہر سو
اب وہ پیپل کے تلے اجڑا کھنڈر کیسا ہے

سخت پتھراؤ تھا کل رات تری بستی میں
دن نکلنے پہ یہ دیکھیں گے کہ سر کیسا ہے

جان دینا ہے ہمیں ایک شوالے کے قریب
آپ بتلائیں ذرا آپ کا در کیسا ہے

دل کے مدفن میں تپشؔ دفن ہے احساس کا جسم
تم نے چھوڑا جسے دیکھو وہ نگر کیسا ہے