مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
ہر طفل کے یاں اشک سے آلودہ ورق ہے
ہوں منتظر اس مہر کے آنے ہی کا ورنہ
شبنم کی طرح آنکھوں میں دم کوئی رمق ہے
دیکھ اے چمن حسن تجھے باغ میں خنداں
شبنم نہیں یہ گل پہ خجالت سے عرق ہے
وہ چاند سا منہ سرخ دوپٹہ میں ہے رخشاں
یا مہر کہوں جلوہ نما زیر شفق ہے
نرگس کی زر و گل پہ بھی وا چشم طمع ہے
اس پر کہ زر و سیم کا اس پاس طبق ہے
دل اس بت بے مہر کو دے مفت ہی کھویا
کہتے ہیں جو کچھ یار مجھے واقعی حق ہے
جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں
جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے
مذکور ہوا یاں مگر اس گل کے دہن کا
جو رشک سے ہر غنچہ کا دل باغ میں شق ہے
کر مصقلۂ ذکر سے دل صاف تو اپنا
بیدارؔ یہ آئینہ تجلی گہۂ حق ہے
غزل
مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
میر محمدی بیدار