مکانوں کے نگر میں ہم اگر کچھ گھر بنا لیتے
تو اپنی بستیوں کو سورگ سے بڑھ کر بنا لیتے
ہمیں اپنے علاقوں سے محبت ہو نہیں پائی
وگرنہ زندگی کو اور بھی بہتر بنا لیتے
سمے سے لڑ رہے تھے اور لمحے کر دیے برباد
ہمیں کرنا یہ تھا لمحات کا لشکر بنا لیتے
غنیمت ہے کہ جنگل کے اصولوں کو نہیں مانا
وگرنہ آشیانوں کو عجائب گھر بنا لیتے
اگر سودا ہی کرنا تھا اسے تو بول تو دیتا
محبت کے لیے ہم دل کو بھی دفتر بنا لیتے
ہوس حیراں نہ کر پاتی طلب تنہا نہ کر پاتی
اگر ہم حسرتوں کو پیار کا ساگر بنا لیتے
کہیں ایسا جو ہو پاتا کہ لڑتے ہی نہیں ہم تم
بہت ممکن تھا ہر کنکر کو شیو شنکر بنا لیتے
غزل
مکانوں کے نگر میں ہم اگر کچھ گھر بنا لیتے
نوین سی چترویدی