میں وہ مجنوں کہ اک صحرا ہے مجھ میں
وہ صحرا بھی بہت سمٹا ہے مجھ میں
مجھے خود سے نکالے گا وہ آخر
بنام عشق جو آیا ہے مجھ میں
تمہاری یاد کو کیسے نکالوں
کہ باقی کچھ نہیں بچتا ہے مجھ میں
کسی کے برف سے لہجے کے ہاتھوں
عجب شعلہ سا اک بھڑکا ہے مجھ میں
کوئی تعویذ کا پانی پلا دو
کوئی جادوگری کرتا ہے مجھ میں
کمینی کو خبر اس کی نہیں ہے
کہ سر سے پاؤں تک دھوکا ہے مجھ میں
تمہارے بعد یہ دیکھا نہیں ہے
نہ جانے کون اب رہتا ہے مجھ میں
تمہیں میری ضرورت بھی پڑے گی
پرانے شہر کا نقشہ ہے مجھ میں
تمہاری سمت ہجرت کر چکا ہے
کہاں اسحاقؔ اب رہتا ہے مجھ میں

غزل
میں وہ مجنوں کہ اک صحرا ہے مجھ میں
اسحاق وردگ