میں وہ مجنوں ہوں کہ آباد نہ اجڑا سمجھوں
مشت خاک اپنی اڑا کر اسے صحرا سمجھوں
اس قدر محو ہوں ان شعلہ رخوں کا جوں شمع
کہ نہ جلنے کو پہچانوں نہ تماشا سمجھوں
چشمک یار ہیں مجھ شمع کے حق میں گل گیر
دم یہ قینچی کے میں انفاس مسیحا سمجھوں
گردش چشم سجن لے گیا خاطر سے غبار
اس کو دشت دل عزلتؔ کا بگولا سمجھوں

غزل
میں وہ مجنوں ہوں کہ آباد نہ اجڑا سمجھوں
ولی عزلت