میں اس کی محبت سے اک دن بھی مکر جاتا
کچھ اور نہیں ہوتا اس دل سے اتر جاتا
جس شام گرفتاری قسمت میں مری آئی
اس شام کی لذت سے میں اور بکھر جاتا
خوشبو کے تعاقب نے زنجیر کیا مجھ کو
ورنہ تو یہاں سے میں چپ چاپ گزر جاتا
آواز سماعت تک پہنچی ہی نہیں شاید
وہ ورنہ تسلی کو کچھ دیر ٹھہر جاتا
ذہنوں کے مراسم تھے اک ساتھ بھی ہو جاتے
اک راہ اگر کوئی دیوار میں کر جاتا
تاثیر نہیں رہتی الفاظ کی بندش میں
میں سچ جو نہیں کہتا لہجے کا اثر جاتا
اب تیرے بچھڑنے سے یہ بات کھلی مجھ پر
تو جان اگر ہوتا میں جاں سے گزر جاتا
دل ہم نے عظیمؔ اپنا آسیب زدہ رکھا
جو خواب جنم لیتا وہ خوف سے مر جاتا
غزل
میں اس کی محبت سے اک دن بھی مکر جاتا
طاہر عظیم