میں اس کی انجمن میں اکیلا نہیں گیا
جو میں گیا تو پھر کوئی تنہا نہیں گیا
میں چاہتا تھا اس کی نگاہوں سے کھیلنا
لیکن ذرا سی دیر بھی کھیلا نہیں گیا
ممکن نہیں تھا حسن و نظر کا موازنہ
مجھ سے تو اس کو ٹھیک سے دیکھا نہیں گیا
تحویل میں کسی کی پہنچ کے ہے خوش وہ دل
جس کو کسی مقام پر رکھا نہیں گیا
دونوں طرف تھی ایک شکایت لکھی ہوئی
چاہا کبھی گیا کبھی چاہا نہیں گیا
غزل
میں اس کی انجمن میں اکیلا نہیں گیا
ذیشان ساحل