EN हिंदी
میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا | شیح شیری
main to saya hun ghaTaon se utarne wala

غزل

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا

مدحت الاختر

;

میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا

تو سمجھتا ہے مجھے حرف مکرر لیکن
میں صحیفہ ہوں ترے دل پہ اترنے والا

تو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بکھرنے والا

اے بدلتے ہوئے موسم کے گریزاں پیکر
عکس دے جا کوئی آنکھوں میں ٹھہرنے والا

میں ہوں دیوار پہ لکھا ہوا کب سے لیکن
کوئی پڑھتا نہیں رستے سے گزرنے والا

جا رہا ہے ترے ہونٹوں کی تمنا لے کر
زندگی بھر تری آواز پہ مرنے والا