میں ترے شہر میں آیا تو ٹھہر جاؤں گا
سایۂ ابر نہیں ہوں کہ گزر جاؤں گا
جذبۂ دل کا وہ عالم ہے تو انشا اللہ
درد بن کر ترے پہلو میں اتر جاؤں گا
محض بیکار نہ سمجھیں مجھے دنیا والے
زندگی ہے تو کوئی کام بھی کر جاؤں گا
دے کے آواز تو دیکھے شب تاریک مجھے
روشنی بن کے فضاؤں میں بکھر جاؤں گا
چھوڑ اے رونق بازار مرا دامن دل
شام آنگن میں اتر آئی ہے گھر جاؤں گا
میں مجاہد ہوں کسی سے نہیں ڈرتا لیکن
سامنا خود کا جو ہو جائے تو ڈر جاؤں گا
راستے صاف ہیں سب فضل خدا سے ماہرؔ
کوئی دیوار نہ روکے گی جدھر جاؤں گا
غزل
میں ترے شہر میں آیا تو ٹھہر جاؤں گا
ماہر عبدالحی

