EN हिंदी
میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے | شیح شیری
main sochta hun kahin tu KHafa na ho jae

غزل

میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے

اسلم فرخی

;

میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے
تری انا مری زنجیر پا نہ ہو جائے

یہ جیتی جاگتی آنکھیں یہ خواب سی دنیا
وفور شوق خود اپنی جزا نہ ہو جائے

قدم قدم پہ بپا جشن امتحان وفا
تری طرح کوئی درد آشنا نہ ہو جائے

نہ دیکھ مجھ کو محبت کی آنکھ سے اے دوست
مرا وجود مرا مدعا نہ ہو جائے

میں جس کو ڈھونڈ رہا ہوں نشاط قربت میں
مرے خیال سے بھی ماورا نہ ہو جائے

زمیں کی گود سے سورج نکالنے والو
ستارۂ سحری رہنما نہ ہو جائے

حریم جاں میں ہے ارزاں خمار تیرہ شبی
یہ اس دیار کی آب و ہوا نہ ہو جائے

غم فراق میں لذت سہی مگر اسلمؔ
مری حیات مرا خوں بہا نہ ہو جائے