میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے
تری انا مری زنجیر پا نہ ہو جائے
یہ جیتی جاگتی آنکھیں یہ خواب سی دنیا
وفور شوق خود اپنی جزا نہ ہو جائے
قدم قدم پہ بپا جشن امتحان وفا
تری طرح کوئی درد آشنا نہ ہو جائے
نہ دیکھ مجھ کو محبت کی آنکھ سے اے دوست
مرا وجود مرا مدعا نہ ہو جائے
میں جس کو ڈھونڈ رہا ہوں نشاط قربت میں
مرے خیال سے بھی ماورا نہ ہو جائے
زمیں کی گود سے سورج نکالنے والو
ستارۂ سحری رہنما نہ ہو جائے
حریم جاں میں ہے ارزاں خمار تیرہ شبی
یہ اس دیار کی آب و ہوا نہ ہو جائے
غم فراق میں لذت سہی مگر اسلمؔ
مری حیات مرا خوں بہا نہ ہو جائے
غزل
میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے
اسلم فرخی