میں شب ہجر کیا کروں تنہا
یاد میں تیری گم رہوں تنہا
ہیں ادھر گردشیں زمانے کی
ہے مقابل ادھر جنوں تنہا
کتنے بے نور ہیں یہ ہنگامے
میں بھرے شہر میں بھی ہوں تنہا
آدمی گھر گیا مسائل میں
رہ گئی زیست بے سکوں تنہا
وہ تو اس دور کے نہیں انساں
مل گیا ہے جنہیں سکوں تنہا
ہم سفر جب نیازؔ اندھیرے ہیں
شمع گھبرا رہی ہے کیوں تنہا
غزل
میں شب ہجر کیا کروں تنہا
عبدالمتین نیاز