میں روایت ہوں ایک بھولی ہوئی
اور تو جدتوں میں رہتا ہے
میری آنکھیں سوال کرتی ہیں
کیا خدا منظروں میں رہتا ہے
ساعتیں رقص کر رہی ہیں مگر
میرا دل الجھنوں میں رہتا ہے
پرچم جنگ جھک گیا لیکن
وسوسہ سا دلوں میں رہتا ہے
گو چراغاں کیے گئے خیمے
پر اندھیرا دلوں میں رہتا ہے
آؤ موجوں سے پوچھ کر آئیں
چاند کن ساحلوں میں رہتا ہے

غزل
میں روایت ہوں ایک بھولی ہوئی (ردیف .. ے)
شائستہ یوسف