میں رات سست عناصر سے تنگ آ گیا تھا
مری حیات فسردہ میں رنگ آ گیا تھا
نگاڑے پیٹے ہواؤں نے سرخ پہروں تک
گدھوں کا جھنڈ کبوتر کے سنگ آ گیا تھا
ستار بجنے لگے صبح کی مسہری پر
دھنک کا قافلۂ ہفت رنگ آ گیا تھا
فلک پہ رینگتے سورج زمین بوس ہوئے
وہ شہسوار شفق بہر جنگ آ گیا تھا
اندھیرے غار میں یہ کلکلاتی کھوپڑیاں
انہی کے دیکھے رعونت پہ زنگ آ گیا تھا
مرے جہان بلا صوت و حرف کے دوارے
نہ جانے کون لئے جل ترنگ آ گیا تھا

غزل
میں رات سست عناصر سے تنگ آ گیا تھا
اسامہ ذاکر