EN हिंदी
میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل | شیح شیری
main nahin kahta ki duniya ko badal kar rah chal

غزل

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل

ثاقب لکھنوی

;

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
خار ہیں پیراہن گل میں سنبھل کر راہ چل

دور ہے ملک عدم اور تجھ میں دم باقی نہیں
ہو سکے تو بس یوں ہی کروٹ بدل کر راہ چل

طالب منزل ہے پھر عزلت نشینی کس لیے
رہروؤں کو دیکھ لے گھر سے نکل کر راہ چل

کوئے جاناں میں زمانہ ہو گیا روتے ہوئے
تا کجا دل کا تأسف ہاتھ مل کر راہ چل

یوں رسائی تا سحر ممکن نہیں اے دل مگر
شمع کی صورت شب غم میں پگھل کر راہ چل