میں نہیں جا پاؤں گا یارو سوئے گلزار ابھی
دیکھنی ہے آبجوئے زیست کی رفتار ابھی
کر چکا ہوں پار یہ دریا نہ جانے کتنی بار
پار یہ دریا کروں گا اور کتنی بار ابھی
گھوم پھر کر دشت و صحرا پھر وہیں لے آئے پاؤں
دل نہیں ہے شاید اس نظارے سے بے زار ابھی
کاوش پیہم ابھی یہ سلسلہ رکنے نہ پائے
جان ابھی آنکھوں میں ہے اور پاؤں میں رفتار ابھی
اے مرے ارمان دل بس اک ذرا کچھ اور صبر
رات ابھی کٹنے کو ہے ملنے کو بھی ہے یار ابھی
جذبۂ دل دیکھنا بھٹکا نہ دینا راہ سے
منتظر ہوگا مرا بھی خود مرا دل دار ابھی
ہوں گی تو اس رہگزر میں بھی کمیں گاہیں ہزار
پھر بھی یہ بار سفر کیوں ہو مجھے دشوار ابھی
غزل
میں نہیں جا پاؤں گا یارو سوئے گلزار ابھی
حبیب تنویر