میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا
نہیں تھا میرے مقابل جو تو کوئی بھی نہ تھا
یہ عجز ذات تھا یا ارتفاع حسن نظر
کبھی کبھی تو مرے چار سو کوئی بھی نہ تھا
عجیب اس کی ہے محفل کہ اس کی محفل میں
پر امتیاز تھے سب سرخ رو کوئی بھی نہ تھا
میں کیا بتاؤں کہ اس خاک سے ہوں وابستہ
زمین دل میں جہاں نم نمو کوئی بھی نہ تھا
یہ کیسی بستی ہے وارد کہاں ہوا ہوں جہاں
نظیر سلسلۂ ہاؤ ہو کوئی بھی نہ تھا
چلو چلیں کہ یقین و گماں کی دنیا میں
نفس نفیس سبھی دل لہو کوئی بھی نہ تھا
میں خود ہی اپنے برابر کھڑا ہوا تھا طورؔ
بھرے جہان میں میرا عدو کوئی بھی نہ تھا
غزل
میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا
کرشن کمار طورؔ

