میں خود سے کس قدر گھبرا رہا ہوں
تمہارا نام لیتا جا رہا ہوں
گزرتا ہی نہیں وہ ایک لمحہ
ادھر میں ہوں کہ بیتا جا رہا ہوں
زمانے اور کچھ دن صبر کر لے
ابھی تو خود سے دھوکے کھا رہا ہوں
بڑھا دے لو ذرا تنہائیوں کی
شب فرقت میں بجھتا جا رہا ہوں
اسی دنیا میں جی لگتا تھا میرا
اسی دنیا سے اب گھبرا رہا ہوں
یہ نادانی نہیں تو کیا ہے دانشؔ
سمجھنا تھا جسے سمجھا رہا ہوں
غزل
میں خود سے کس قدر گھبرا رہا ہوں
مدن موہن دانش