میں خود سے دور تھا اور مجھ سے دور تھا وہ بھی
بہاؤ تیز تھا اور زد میں آ گیا وہ بھی
چھوا ہی تھا کہ فضا میں بکھر کے پھیل گیا
مری ہی طرح دھوئیں کی لکیر تھا وہ بھی
یہ دیکھنے کے لیے پھر پلٹ نہ جاؤں کہیں
میں گم نہ ہو گیا جب تک کھڑا رہا وہ بھی
ابھی تو کانٹوں بھری جھاڑیوں میں اٹکا ہے
کبھی دکھائی دیا تھا ہرا بھرا وہ بھی
بچھڑنے والے کسی کے لیے نہیں رکتے
پھر ایسا وقت بھی آیا بچھڑ گیا وہ بھی
غزل
میں خود سے دور تھا اور مجھ سے دور تھا وہ بھی
عتیق اللہ