میں جنم جنم کا انیس ہوں کسی طور دل میں بسا مجھے
کوئی رنج ہے تو گمیں نہ ہو کوئی داغ ہے تو دکھا مجھے
یہ تمام سبزۂ آب جو یہ تمام خیمۂ رنگ و بو
ترے جس خیال کا عکس ہیں وہ خیال کر دے عطا مجھے
جنہیں حرف جاں کی خبر نہیں وہ پڑھانے آئے کتاب جاں
جنہیں کوئی علم وفا نہ تھا وہ سکھانے آئے وفا مجھے
میں نیاز مند جنوں سہی مجھے عقل سے بھی ہے واسطہ
کسی خواب کی نہ جھلک دکھا ترے پاس کیا ہے دکھا مجھے
تری گفتگو سے گماں ہوا کوئی بات میری بھلی لگی
میں نعیمؔ ہوں کہ حسنؔ ہوں اب یہی بات پہلے بتا مجھے
غزل
میں جنم جنم کا انیس ہوں کسی طور دل میں بسا مجھے
حسن نعیم