میں جب بھی طالب ناموس ہونے لگتا ہوں
نئے لباسوں میں ملبوس ہونے لگتا ہوں
دکھانے لگتا ہے وہ خواب آسمانوں کے
زمیں سے جب بھی میں مانوس ہونے لگتا ہوں
جلایا جس نے مرا گھر اسی دیے کے لیے
ہوا چلے تو میں فانوس ہونے لگتا ہوں
اچھال دیتا ہے پتھر وہ ٹھہرے پانی میں
میں پر سکون جو محسوس ہونے لگتا ہوں
یہ کس کی پیاس کی خاطر کبھی کبھی جاویدؔ
میں ایک قطرے سے قاموس ہونے لگتا ہوں
غزل
میں جب بھی طالب ناموس ہونے لگتا ہوں
جاوید نسیمی