میں ہنس رہا تھا گرچہ مرے دل میں درد تھا
یہ راز کھل گیا تو مرا چہرہ زرد تھا
اچھا ہوا کہ آپ نے دامن جھٹک دیا
میرا وجود آپ کے دامن پہ گرد تھا
خود اپنی ذات کے نہ کسی کام آ سکے
وہ لوگ جن کے دل میں زمانے کا درد تھا
کتنے عروج پر تھی مری شدت طلب
تم مل گئے تو شوق کا ہر جذبہ سرد تھا
تنہائیوں میں جس کے بنے رازدار تم
گویا وہ میں نہ تھا کوئی آوارہ گرد تھا

غزل
میں ہنس رہا تھا گرچہ مرے دل میں درد تھا
عیش برنی