میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں
بلند ہوتا فضا میں کہیں دھواں دیکھوں
عبث ہے سوچنا لا انتہا کے بارے میں
نگاہیں کیوں نہ جھکا لوں جو آسماں دیکھوں
بہت قدیم ہے متروک تو نہیں لیکن
ہوا جو ریت پہ لکھتی ہے وہ زباں دیکھوں
ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں
میں خود کو اجنبی لوگوں کے درمیاں دیکھوں
خیال تک نہ رہے رائیگاں گزرنے کا
اگر ملالؔ ان آنکھوں کو مہرباں دیکھوں
غزل
میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں
صغیر ملال