میں بھی گم ماضی میں تھا
دریا بھی جلدی میں تھا
ایک بلا کا شور و غل
میری خاموشی میں تھا
بھر آئیں اس کی آنکھیں
پھر دریا کشتی میں تھا
ایک ہی موسم طاری کیوں
دل کی پھلواری میں تھا
صحرا صحرا بھٹکا میں
وہ دل کی بستی میں تھا
لمحہ لمحہ راکھ ہوا
میں بھی کب جلدی میں تھا؟

غزل
میں بھی گم ماضی میں تھا
پرکھر مالوی کانھا