EN हिंदी
میں بھی بے انت ہوں اور تو بھی ہے گہرا صحرا | شیح شیری
main bhi be-ant hun aur tu bhi hai gahra sahra

غزل

میں بھی بے انت ہوں اور تو بھی ہے گہرا صحرا

افتخار مغل

;

میں بھی بے انت ہوں اور تو بھی ہے گہرا صحرا
یا ٹھہر مجھ میں یا خود میں مجھے ٹھہرا صحرا

روح میں لہر بناتے ہیں تری لہروں سے
اور کچھ دیر مرے سامنے لہرا صحرا

آنکھ جھپکی تھی بس اک لمحے کو اور اس کے بعد
میں نے ڈھونڈا ہے تجھے زندگی صحرا صحرا

اپنی ہستی کو بکھرنے سے بچا لینا تم
مجھ پہ مت جانا مری جان میں ٹھہرا صحرا

میرے لہجے کا سمندر ہی نہیں سوکھا ہے
لٹ گیا تیری ہنسی کا بھی سنہرا صحرا