EN हिंदी
میں بات کون سے پیرایۂ بیاں میں کروں | شیح شیری
main baat kaun se paira-e-bayan mein karun

غزل

میں بات کون سے پیرایۂ بیاں میں کروں

عبد العزیز خالد

;

میں بات کون سے پیرایۂ بیاں میں کروں
جو سوچتا ہوں اسے کس زبان میں لکھوں

کتر دئے ہیں زمانے نے پنکھ خوابوں کے
بھرا ہے ساغر حسرت میں آرزوؤں کا خوں

نہیں ہے کشتۂ خوباں کا خوں بہا کوئی
اے اہل شوق نہ کھاؤ فریب حرف فسوں

کبھی ہے چاند کا ہالہ نقاب لالہ کبھی
انیلے رنگ دکھاتی ہے زلف غالیہ گوں

زمام راحلۂ دل خرد کے ہاتھ میں دو
کہ مارتی ہے ہوس اس نواح میں شب خوں

اب اس کو خانہ خرابی کہو کہ معموری
زمیں میں ساتھ خزانے کے دھنس گیا قاروں

بنو تمیم ہو تم میں سلامہ بن جندل
بلا جواز تمہاری ثنا میں کیسے کروں

پرندگان بیاباں کریں وسیلہ جسے
میں اس امین کے خرمن کے خوشہ چینوں میں ہوں

شہید علم بھی ہوں زندۂ محبت بھی
بہ فیض ذوق سلیم و طبیعت موزوں

شریک زمرۂ محنت کشاں ہے شاعر بھی
بہائے صدر نفس خونچکاں ہے اک مضموں

اناڑی پن نہ کہو میری سادہ لوحی کو
ہوں نونیاز مگر کہنہ مشق جذب و جنوں

بلائے جبر بھی ہے پائے اختیار بھی ہے
قصوروار ہوں میں یا صدائے کن فیکوں

ورائے فرہ فرہنگ دیکھو رنگ سخن
ابوالکلام نہیں میں ابوالمعانی ہوں