میں عوام میں ہوں لیکن نہیں خوئے عامیانہ
نہ عمل خوشامدانہ نہ سخن خوشامدانہ
تری اور زندگی ہے مری اور زندگی ہے
میں بلندیوں کا جویا تو اسیر آشیانہ
مجھے راس ہی نہ آئی کبھی ناقصوں کی صحبت
مرے جسم ناتواں میں نہیں روح تاجرانہ
مرے خضر کے قدم ہیں مجھے مشعل منازل
مرے دیدۂ طلب میں ہے نگاہ مجرمانہ
غم و رنج کا چھپانا بھی ہے کار ظرف لیکن
ہے خوشی کو ضبط کرنا رہ و رسم عاقلانہ
تری تمکنت اگر ہے کسی دوسرے کے بل پر
یہ چلن ہے باغیانہ یہ قدم ہے مجرمانہ
مجھے خضر نو کی حاجت نہیں راہ بندگی میں
مرے مسلک وفا میں یہ روش ہے کافرانہ
غزل
میں عوام میں ہوں لیکن نہیں خوئے عامیانہ
احسان دانش