میں اپنے عشق کو خوش اہتمام کرتا ہوا
مقام شکر پہ پہنچا کلام کرتا ہوا
یہ گرد باد سلامت گزرنا چاہتا ہے
مرے چراغ پہ وحشت تمام کرتا ہوا
گزر رہا ہوں کسی قریۂ ملامت سے
قدیم سلسلہ داری کو عام کرتا ہوا
تو پھر یہ کون ہے نصف النہار کے ہنگام
قیام و رقص کی حالت میں شام کرتا ہوا
کبھی تو کھل کے بتا اے مری ریاضت مرگ
میں کیسا لگتا ہوں فکر دوام کرتا ہوا
زمانوں بعد بھی دشت بلا میں میرا حسینؔ
دکھائی دیتا ہے حجت تمام کرتا ہوا
غزل
میں اپنے عشق کو خوش اہتمام کرتا ہوا
عباس تابش