میں اکثر سوچتی ہوں زندگی کو کون لکھے گا
نہ میں لکھوں تو پھر اس بے بسی کو کون لکھے گا
بہت مصروف ہیں اہل جہاں ہرزہ سرائی میں
اب آشوب سخن میں بے حسی کو کون لکھے گا
کئی صدیاں گزاریں منزلوں کے کھوج میں پھرتے
تو پھر میرے سوا اس گمرہی کو کون لکھے گا
ہم اس شہر جفا پیشہ سے کچھ امید کیا رکھیں
یہاں اس ہاو ہو میں خامشی کو کون لکھے گا
اسے فرصت نہیں ساحل، سمندر، موج لکھنے سے
پریشاں ہوں مری تشنہ لبی کو کون لکھے گا
حجابؔ اس شہر نا پرساں میں سب جھگڑا انا کا ہے
سرور خود پرستی میں خودی کو کون لکھے گا
غزل
میں اکثر سوچتی ہوں زندگی کو کون لکھے گا
حجاب عباسی