EN हिंदी
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں | شیح شیری
main aise moD par apni kahani chhoD aaya hun

غزل

میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں

ندیم بھابھہ

;

میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں

ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں

بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں

اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سناٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں

ندیمؔ اس گردش افلاک کو میں چاک سمجھا تو
وہاں پر زندگی اپنی بنانی چھوڑ آیا ہوں