میں اگر فکر کے شہ پر سے الگ ہو جاؤں
اپنے اندر کے سخنور سے الگ ہو جاؤں
آئنہ گرد سے باطل کی نکل آئے گا
حق کی تائید میں لشکر سے الگ ہو جاؤں
آسماں بھی نہیں روئے گا لہو کے آنسو
میں اگر شام کے منظر سے الگ ہو جاؤں
تپتے صحرا کی زمیں کو بھی ضرورت ہے مری
لیکن اب کیسے سمندر سے الگ ہو جاؤں
زلزلے اتنے مری ذات میں پوشیدہ ہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ محور سے الگ ہو جاؤں
بانٹ لینا کبھی تقسیم نہ کرنا مجھ کو
یہ نہ ہوگا کہ برابر سے الگ ہو جاؤں

غزل
میں اگر فکر کے شہ پر سے الگ ہو جاؤں
س۔ ش۔ عالم