محرم راز حرم ہوں واقف بت خانہ ہوں
میں رہ و رسم محبت کا مگر دیوانہ ہوں
میں نہ بے قیمت خذف ہوں اور نہ لعل بے بہا
میں تو ارباب نظر کے ظرف کا پیمانہ ہوں
میری رگ رگ میں ہے موج زندگی رقصاں مگر
اک لب جاں بخش کو ترسا ہوا پیمانہ ہوں
ہوں بظاہر نقش کچھ بکھرے ہوئے الفاظ کا
تم جو اے جان جہاں سمجھو تو اک افسانہ ہوں
میری پامالی کے چرچے تم بھی سن لو گے کبھی
اپنے گلشن میں ہوں لیکن سبزۂ بیگانہ ہوں
ڈھونڈنے نکلیں گے مجھ کو ایک دن اہل وفا
دفن ہے گنجینۂ دل جس میں وہ ویرانہ ہوں

غزل
محرم راز حرم ہوں واقف بت خانہ ہوں
کرم حیدری