مہجور کوئی بات دلیرانہ لکھے گا
شاعر نہ بنا تو کوئی افسانہ لکھے گا
ہر غنچۂ آزاد نمو پائے گا اپنی
گلشن کی ہر اک بات جداگانہ لکھے گا
دنیا کا جو منظر ہے وہ سنگین پڑا ہے
ہر اہل نظر اس کو فریبانہ لکھے گا
تم کیا کسی تاریخ کو تبدیل کرو گے
انسان کا دل سیل کا پروانہ لکھے گا
پردے جو اٹھیں گے تو مؤرخ کا قلم بھی
تہذیب کے دامان پہ کیا کیا نہ لکھے گا
سازش کی بنت خون کے تاروں سے ہوئی ہے
مظلوم کا خوں اس کو بہیمانہ لکھے گا
ایندھن کے لیے آتش و آہن کا بہانہ
اسرار حقیقت کوئی دیوانہ لکھے گا
احساس کے مرقد کا مجاور کوئی ہوگا
سفاک کو جو دلبر جانانہ لکھے گا

غزل
مہجور کوئی بات دلیرانہ لکھے گا
محمد خالد