EN हिंदी
مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے | شیح شیری
mah-ruKH jo gharon se kabhi bahar nikal aae

غزل

مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے

عباس تابش

;

مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے
پس منظر شب سے کئی منظر نکل آئے

تم اپنی زبانوں سے اسے چاٹتے رہنا
کیا جانیے دیوار میں کب در نکل آئے

کیا ان کو ڈبوئے کسی دریا کی روانی
یہ شہر تو کوزے کے سمندر نکل آئے

دن بھر تو رہے مہر جہاں تاب کی صورت
جب رات پڑی بھیس بدل کر نکل آئے

آئے ہیں اگرچہ کئی چہروں سے الجھ کر
لگتا ہے کہ ہم آنکھ بچا کر نکل آئے

آواز تو دو پرتو مہتاب کو تابشؔ
ممکن ہے وہ تالاب سے باہر نکل آئے