مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے
پس منظر شب سے کئی منظر نکل آئے
تم اپنی زبانوں سے اسے چاٹتے رہنا
کیا جانیے دیوار میں کب در نکل آئے
کیا ان کو ڈبوئے کسی دریا کی روانی
یہ شہر تو کوزے کے سمندر نکل آئے
دن بھر تو رہے مہر جہاں تاب کی صورت
جب رات پڑی بھیس بدل کر نکل آئے
آئے ہیں اگرچہ کئی چہروں سے الجھ کر
لگتا ہے کہ ہم آنکھ بچا کر نکل آئے
آواز تو دو پرتو مہتاب کو تابشؔ
ممکن ہے وہ تالاب سے باہر نکل آئے
غزل
مہ رخ جو گھروں سے کبھی باہر نکل آئے
عباس تابش